Saturday 10 October 2015

چھلکتی آئے کہ اپنی طلب سے بھی کم آئے

چھلکتی آئے کہ اپنی طلب سے بھی کم آئے
ہمارے سامنے ساقی بہ ساغر جَم آئے
فروغِ آتشِ گُل ہی چمن کی ٹھنڈک ہے
سُلگتی چیختی راتوں کو بھی تو شبنم آئے
بس ایک ہم ہی لیے جائیں درس عِجز و نیاز
کبھی تو اکڑی ہوئی گردنوں میں بھی خم آئے
جو کارواں میں رہے میرِ کارواں کے قریب
نہ جانے کیوں وہ پلٹ آئے، اور برہم آئے
نگارِ صُبح سے پوچھیں گے شب گزرنے دو
کہ ظُلمتوں سے اُلجھ کر وہ آئی، یا ہم آئے
عجیب بات ہے کیچڑ میں لہلہائے کنول
پھٹے پرانے جسموں پہ سج کے ریشم آئے
مسیح کون بنے، سارے ہاتھ آلُودہ
لہولہان ہے دھرتی کہاں سے مرہم آئے

اسرار ناروی

No comments:

Post a Comment