Saturday 10 October 2015

روح پرچھائیں ہے پرچھائیں سے کب پیار ہوا

روح پرچھائیں ہے پرچھائیں سے کب پیار ہُوا
جسم ہی تو وہ حقیقت ہے کہ دلدار ہوا
کوئی صورت بھی تو اس جیسی نہیں یاد آتی
کیسا لمحہ تھا کہ اِک عمر کا آزار ہوا
تجھ سے پہلے تو بہت سادہ و معصوم تھا دل
تجھ سے بِچھڑا تو کئی بار گنہگار ہوا
کیا قیامت ہے کہ جس نے مِری دنیا لُوٹی
وہ بھی اقرارِ محبت کا طلبگار ہوا
نغمۂ صُبح تو چھیڑا تھا، مگر کیا کیجئے
سازِ اِحساس کا ہر تار شبِ تار ہوا
قد و گیسُو ہی بنے اپنے لیے دار و رسن
کوئی منصور کبھی یوں بھی سرِ دار ہوا
سالہا سال میں تکمیل کو پہنچی یہ غزل
دلِ وحشی، کبھی مائل، کبھی بے زار ہوا

  اسرار ناروی

No comments:

Post a Comment