Wednesday, 7 October 2015

ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئی

ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئی
جس کے دروازے کی قسمت میں نہیں دستک کوئی
یوں تو ہونے کو سبھی کچھ ہے مِرے دل میں مگر
اس دکاں پر آج تک آیا نہیں گاہک کوئی
وہ خدا کی کھوج میں خود آخری حد تک گیا
خود کو پانے کی مگر کوشش نہ کی انتھک کوئی
باغ میں کل رات پھولوں کی حویلی لُٹ گئی
چشمِ شبنم سے چُرا کر لے گیا ٹھنڈک کوئی
دے گیا آنکھوں کو فرشِ راہ بننے کا صلہ
دے گیا بینائی کو سوغات میں دیمک کوئی
ایک بھی خواہش کے ہاتھوں میں نہ مہندی لگ سکی
میرے جذبوں میں نہ دُلہا بن سکا اب تک کوئی
وہ بھی ساجدؔ تھا مِرے جذبوں کی چوری میں شریک
اس کی جانب کیوں نہیں اٹھی نگاہِ شک کوئی

اقبال ساجد

No comments:

Post a Comment