جب میرے راستے میں کوئی میکدہ پڑا
اک بار اپنے غم کی طرف دیکھنا پڑا
ترکِ تعلقات کو اک لمحہ چاہیے
لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا
اک تشنہ لب نے چھین لیا بڑھ کے جام مَے
آئے تھے پوچھتے ہوئے میخانے کا پتہ
ساقی سے لیکن اپنا پتہ پوچھنا پڑا
معلوم اب ہوئی تِری بے گانگی کی قدر
اپنوں کے التفات سے جب واسطہ پڑا
یوں جگمگا رہا ہے مِرا نقش پا فناؔ
جیسے ہو راستے میں کوئی آئینہ پڑا
فنا نظامی کانپوری
No comments:
Post a Comment