Thursday, 1 October 2015

ادا ادا کو تری کر کے دل نشیں میں نے

ادا ادا کو تِری کر کے دل نشیں میں نے
بنا لیا ہے غمِ دوراں کو بھی حسیں میں نے
چلا ہوں عشق کی راہوں میں بے نیازانہ
اُنہیں بھی چھوڑ دیا کہیں کہیں میں نے
کسی کے وعدۂ فردا پہ مطمئن ہو کر
بلند کر دی بہت عظمتِ یقیں میں نے
کس احتیاط سے گزرے ہم اس زمانے سے
کہیں انہوں نے بچا لی نظر، کہیں میں نے
جب آگہی سے مسائل جنوں کے حل نہ ہوئے
بہ مصلحت تِری زلفیں بکھیر دیں میں نے
مزاجِ اہلِ چمن جب کوئی بدل نہ سکا
گلوں میں پھونک دی اک روحِ آنشیں میں نے
کسی کے ظلم کی رکھی ہے یوں بھی لاج قمرؔ
خود اپنے زخم پہ ڈھک لی ہے آستیں میں نے

قمر مرادآبادی

No comments:

Post a Comment