ادا ادا کو تِری کر کے دل نشیں میں نے
بنا لیا ہے غمِ دوراں کو بھی حسیں میں نے
چلا ہوں عشق کی راہوں میں بے نیازانہ
اُنہیں بھی چھوڑ دیا کہیں کہیں میں نے
کسی کے وعدۂ فردا پہ مطمئن ہو کر
کس احتیاط سے گزرے ہم اس زمانے سے
کہیں انہوں نے بچا لی نظر، کہیں میں نے
جب آگہی سے مسائل جنوں کے حل نہ ہوئے
بہ مصلحت تِری زلفیں بکھیر دیں میں نے
مزاجِ اہلِ چمن جب کوئی بدل نہ سکا
گلوں میں پھونک دی اک روحِ آنشیں میں نے
کسی کے ظلم کی رکھی ہے یوں بھی لاج قمرؔ
خود اپنے زخم پہ ڈھک لی ہے آستیں میں نے
قمر مرادآبادی
No comments:
Post a Comment