Sunday 11 October 2015

لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں

لے رہا تھا مِرا امتحان قسطوں میں
خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں
تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اِک مکان قسطوں میں
تمام قرض ادا کر کے ساہُوکاروں کا
بچا ہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں
ہر ایک شخص سناتا ہے نت نئے ڈھب سے
بدل نہ جائے مِری داستان قسطوں میں
ہم ایک ساتھ نہیں کرتے گھر کی آرائش
ہم ایسے لوگ بڑھاتے ہیں شان قسطوں میں
بسا رہا ہے ہر اک فرد اک الگ ہی جہاں
بکھر رہا ہے ہر اک خاندان قسطوں میں
ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف
مٹا رہے ہیں سنہری زبان قسطوں میں
یہ کیا ہوا کہ بڑھاپا اچانک آ پہنچا
ہمارے بچے ہوئے تھے جوان قسطوں میں
اگر ہماری یہی بے حسی رہی آزر
مٹا ہی دے گا وہ نام و نشان قسطوں میں

فریاد آزر

No comments:

Post a Comment