Sunday 11 October 2015

اس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے مجھے

اس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے مجھے
دھوپ خود ساختہ دیوار کا سایہ ہے مجھے
پہلے مٹی کو ہواؤں کے کرم پر چھوڑا
اور پھر آگ کے دریا میں گِرایا ہے مجھے
کیوں مِری روح ہوئ جاتی ہے چھلنی چھلنی
کس لیے کربِ فلسطین بنایا ہے مجھے
مجھ کو بپھرے ہوئے دریاؤں کی لہروں میں نہ ڈھونڈ
مجھ سے ٹھہرے ہوئے پانی نے چرایا ہے مجھے
بارہا بہکے مِرے کردہ ثوابوں کے قدم
بارہا میرے گناہوں نے بچایا ہے مجھے
پھر ہواؤں پہ وہی نقشِ صدا ہے آزرؔ
پھر سرابوں کے سمندر نے بلایا ہے مجھے

فریاد آزر

No comments:

Post a Comment