اس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے مجھے
دھوپ خود ساختہ دیوار کا سایہ ہے مجھے
پہلے مٹی کو ہواؤں کے کرم پر چھوڑا
اور پھر آگ کے دریا میں گِرایا ہے مجھے
کیوں مِری روح ہوئ جاتی ہے چھلنی چھلنی
مجھ کو بپھرے ہوئے دریاؤں کی لہروں میں نہ ڈھونڈ
مجھ سے ٹھہرے ہوئے پانی نے چرایا ہے مجھے
بارہا بہکے مِرے کردہ ثوابوں کے قدم
بارہا میرے گناہوں نے بچایا ہے مجھے
پھر ہواؤں پہ وہی نقشِ صدا ہے آزرؔ
پھر سرابوں کے سمندر نے بلایا ہے مجھے
فریاد آزر
No comments:
Post a Comment