Wednesday 14 October 2015

بلا کی پیاس ہے دریا کے دو کناروں کو

بلا کی پیاس ہے دریا کے دو کناروں کو
سمجھ سکے تو سمجھ میرے استعاروں کو
جو پیش پیش رہا ہر گناہ میں، یارو
طلب کِیا ہے اسی نے گناہ گاروں کو
ہر ایک ظلم کو سہتے رہے سبھی ہنس کر
کسی نے کم نہ کیا اس کے اختیاروں کو
نہ کارواں نہ کہیں گردِ کارواں کب سے
بہت گِلے ہیں مسافر سے رہگزاروں کو
ہر ایک نے اسے بے اعتبار ٹھہرایا
ہُوا نہ جانے یہ کیا اس کے اعتباروں کو
ہر ایک شخص کو معلوم تھا مآل اپنا
مگر نہ ٹوک سکا کوئی شہ سواروں کو

امیر قزلباش

No comments:

Post a Comment