بلا کی پیاس ہے دریا کے دو کناروں کو
سمجھ سکے تو سمجھ میرے استعاروں کو
جو پیش پیش رہا ہر گناہ میں، یارو
طلب کِیا ہے اسی نے گناہ گاروں کو
ہر ایک ظلم کو سہتے رہے سبھی ہنس کر
کسی نے کم نہ کیا اس کے اختیاروں کو
نہ کارواں نہ کہیں گردِ کارواں کب سے
بہت گِلے ہیں مسافر سے رہگزاروں کو
ہر ایک نے اسے بے اعتبار ٹھہرایا
ہُوا نہ جانے یہ کیا اس کے اعتباروں کو
ہر ایک شخص کو معلوم تھا مآل اپنا
مگر نہ ٹوک سکا کوئی شہ سواروں کو
سمجھ سکے تو سمجھ میرے استعاروں کو
جو پیش پیش رہا ہر گناہ میں، یارو
طلب کِیا ہے اسی نے گناہ گاروں کو
ہر ایک ظلم کو سہتے رہے سبھی ہنس کر
کسی نے کم نہ کیا اس کے اختیاروں کو
نہ کارواں نہ کہیں گردِ کارواں کب سے
بہت گِلے ہیں مسافر سے رہگزاروں کو
ہر ایک نے اسے بے اعتبار ٹھہرایا
ہُوا نہ جانے یہ کیا اس کے اعتباروں کو
ہر ایک شخص کو معلوم تھا مآل اپنا
مگر نہ ٹوک سکا کوئی شہ سواروں کو
امیر قزلباش
No comments:
Post a Comment