Wednesday 14 October 2015

دوست سفاک ہیں مرنے نہیں دیتے مجھ کو

دوست سفاک ہیں مرنے نہیں دیتے مجھ کو
میں کہ اک زخم ہوں بھرنے نہیں دیتے مجھ کو
جانے کیا جرم ہُوا ہے کہ مِرے شہر کے لوگ
اس کی گلیوں سے گزرنے نہیں دیتے مجھ کو
میں اگر ڈوبنا چاہوں تو بچا لیتے ہیں لوگ
اور ابھروں تو ابھرنے نہیں دیتے مجھ کو
سر پہ جلتا ہوا سورج ہے، مگر یہ اشجار
اپنے سائے میں ٹھہرنے نہیں دیتے مجھ کو
میں تھکا ہارا پرندہ ہوں خلا میں کب سے
اس بلندی سے اترنے نہیں دیتے مجھ کو

امیر قزلباش

No comments:

Post a Comment