زندگی تجھ کو منانے نکلے
ہم بھی کِس درجہ دِوانے نکلے
کچھ تو دُشمن تھے مخالف صف میں
کچھ مِرے دوست پُرانے نکلے
اس نے پھر موند لیں آنکھیں اپنی
ہر طرف آئینہ خانے نکلے
نظر انداز کِیا ہے اس نے
خود سے مِلنے کے بہانے نکلے
دل کے ویران کھنڈر میں اے دوست
تیری یادوں کے خزانے نکلے
بے بصارت ہے یہ بستی یارو
آئینہ کس کو دِکھانے نکلے
ان اندھیروں میں جیو گے کب تک
کوئی تو شمع جلانے نکلے
ہم کہ تنہا رہے لمحہ لمحہ
اس کے ہمراہ زمانے نکلے
ہم بھی کِس درجہ دِوانے نکلے
کچھ تو دُشمن تھے مخالف صف میں
کچھ مِرے دوست پُرانے نکلے
اس نے پھر موند لیں آنکھیں اپنی
ہر طرف آئینہ خانے نکلے
نظر انداز کِیا ہے اس نے
خود سے مِلنے کے بہانے نکلے
دل کے ویران کھنڈر میں اے دوست
تیری یادوں کے خزانے نکلے
بے بصارت ہے یہ بستی یارو
آئینہ کس کو دِکھانے نکلے
ان اندھیروں میں جیو گے کب تک
کوئی تو شمع جلانے نکلے
ہم کہ تنہا رہے لمحہ لمحہ
اس کے ہمراہ زمانے نکلے
امیر قزلباش
No comments:
Post a Comment