Sunday 11 October 2015

صبح نہیں ہوئی ابھی صبح بخیر صاحبا

صبح نہیں ہوئی ابھی، صبح بخیر صاحبا
رنج کی رات تھی، گئی، صبح بخیر صاحبا
چشم کی کارگاہ کی، حُسن کی بارگاہ کی
آپ کی خواب گاہ کی، صبح بخیر صاحبا
فرصتِ نِیم شب سے ہو، لرزشِ زیرِ لب سے ہو
عرصۂ دل میں گونجتی، صبح بخیر صاحبا
تاب نہ لاؤں کیا عجب، دیکھ نہ پاؤں کیا عجب
میری طرف سے پیشگی، صبح بخیر صاحبا
زخم سِلے بغیر ہی، پھول کِھلے بغیر ہی
تجھ سے مِلے بغیر ہی، صبح بخیر صاحبا
کیا ہے اگر بیاں نہ ہو، واقعہ داستاں نہ ہو
کچھ بھی نہیں ہُوا کبھی، صبح بخیر صاحبا

ضیا المصطفیٰ ترک

No comments:

Post a Comment