Sunday 11 October 2015

کیسے کہیں کہ کیسے گزاری ہے زندگی

کیسے کہیں کہ کیسے گزاری ہے زندگی 
کیا بوجھ تھی کہ سر سے اتاری ہے زندگی 
مقتل تھے گام گام، یہ رستہ طویل تھا 
اپنے لہو سے ہم نے سنواری ہے زندگی 
کرتی ہے خود تلاش یہ کانٹوں کا راستہ 
اس واسطے سکون سے عاری ہے زندگی 
قائم ہے ایک فاصلہ دونوں کے درمیاں 
شک اور یقیں کے ساتھ اب جاری ہے زندگی 
میں جانتی ہوں زندگی ہے کرب و اضطراب 
سانسوں کے بوجھ سے بڑی بھاری ہے زندگی 
شاہینؔ اپنی ہار پر ہے مطمئن کہ بس 
اک جیت کے لئے ہی تو ہاری ہے زندگی

نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment