Sunday 11 October 2015

کس کی آس امید پہ اے دل آنکھیں روز بچھاتے ہیں

کس کی آس امید پہ اے دل! آنکھیں روز بچھاتے ہیں 
دن بھر اس کی راہ تکتے ہیں، شب بھر دِئیے جلاتے ہیں 
خون کے آنسو روتے ہیں، فرقت کی لمبی راتوں میں 
شب بھر تارے گنتے ہیں، ہم چاند سے آنکھ چراتے ہیں 
صدیوں سے ہے ریت ہماری اور ہمارا شیوہ بھی 
چاہے جتنی عمر بسر ہو، اپنا عہد نبھاتے ہیں 
جان لبوں پہ آ جائے تو دشتِ وفا کے ہم سفرو
اپنے آنسو پی لیتے ہیں، من کی پیاس بجھاتے ہیں 
سینے میں کسک سی رہتی ہے، آنکھوں میں جلن سی ہوتی ہے 
شاہینؔ شبِ ہجراں میں کیسے اپنا وقت نبھاتے ہیں

نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment