Sunday 11 October 2015

درد مسافر ٹھہر گیا تھا اکھیوں کی حیرانی میں

درد مسافر ٹھہر گیا تھا اکھیوں کی حیرانی میں 
صرف محبت بہتی تھی اور ساتھ یہ اشک روانی میں 
کیسے ہوا اور کب یہ ہوا کچھ خبر نہیں تھی دل کو تو 
ایک محبت جا سوئی تھی، وحشت میں، ویرانی میں 
درد کی شدت اور بڑھی تھی شہرِ وفا کی شاموں میں 
اور ویرانی بیٹھ گئی تھی ان اکھیوں کے پانی میں 
اس ہستی کے اندھیاروں نے بخت کو ایسے گھیرا تھا 
اپنی صدا تک اجڑ گئی تھی دل کی نوحہ خوانی میں 
ایک سخنور کے لفظوں نے مجھ کو یوں برباد کیا 
لطف سماعت کو ملتا ہے اب تو زہر افشانی میں 
اس نے انجانی سی باتیں کیں تو پھر یہ علم ہوا 
ہم تو دانا سمجھ رہے تھے خود کو بڑی نادانی میں

نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment