Saturday 10 October 2015

ہر سانس میں خود اپنے نہ ہونے کا گماں تھا

ہر سانس میں خود اپنے نہ ہونے کا گماں تھا
وہ سامنے آئے تو مجھے ہوش کہاں تھا
کرتی ہیں الٹ پھیر یوں ہی ان کی نگاہیں
کعبہ ہے وہیں آج، صنم خانہ جہاں تھا
تقصیرِ نظر دیکھنے والوں کی ہے، ورنہ
ان کا کوئی جلوہ نہ عیاں تھا نہ نہاں تھا
بدلی جو ذرا چشمِ مشیئت کوئی دم کو
ہر سمت بپا محشرِ فریاد و فغاں تھا
لپکا ہے بگولہ سا ابھی ان کی طرف سے
شاید کسی مجبور کی آہوں کا دھواں تھا
انورؔ مِرے کام آئی قیامت میں ندامت
رحمت کا تقاضا مِرا ہر اشکِ رواں تھا

انور صابری

No comments:

Post a Comment