Sunday 11 October 2015

شب گریہ ہے مگر کوئی بھی آواز نہیں

شبِ گِریہ ہے مگر کوئی بھی آواز نہیں
اور خیموں سے اُدھر کوئی بھی آواز نہیں
رنگ بُجھتے ہوئے اور آئینے جل اُٹھتے ہوئے
ہر طرف رقصِ شرر، کوئی بھی آواز نہیں
ڈوبتے ہاتھ، سِسکتی ہوئی آنکھیں ہر سمت
سَیلِ پُر شور ہے، پر کوئی بھی آواز نہیں
آسماں گِرتا ہوا ساتھ لیے بام و در
پھر کہاں خیر خبر، کوئی بھی آواز نہیں
بَین کرتی ہوئی، کُرلاتی ہوئی راتوں میں
مائیں ڈھونڈے ہیں پِسر، کوئی بھی آواز نہیں
مُنہدِم ہو رہے جو کوئی، پُکارے کیوں کر
کوئی کیوں آئے جدھر کوئی بھی آواز نہیں

ضیا المصطفیٰ ترک

No comments:

Post a Comment