سکوت سے بھی سخن کو نکال لاتا ہوا
یہ میں ہوں، لوحِ شکستہ سے لفظ اٹھاتا ہوا
مکاں کی تنگی و تاریکی بیشتر تھی سو میں
دِیے جلاتا ہُوا، آئینے بناتا ہُوا
تِرے غیاب کو موجود میں بدلتے ہوئے
کبھی میں خود کو تِرے نام سے بلاتا ہُوا
چراغ جلتے ہی اِک شہر منکشف ہم پر
اور اُس کے بعد وہی شہر ڈوب جاتا ہُوا
بس ایک خواب کہ اس قریۂ بدن سے ہنوز
نواحِ دل تلک اِک راستہ سا آتا ہُوا
یہ میں ہوں، لوحِ شکستہ سے لفظ اٹھاتا ہوا
مکاں کی تنگی و تاریکی بیشتر تھی سو میں
دِیے جلاتا ہُوا، آئینے بناتا ہُوا
تِرے غیاب کو موجود میں بدلتے ہوئے
کبھی میں خود کو تِرے نام سے بلاتا ہُوا
چراغ جلتے ہی اِک شہر منکشف ہم پر
اور اُس کے بعد وہی شہر ڈوب جاتا ہُوا
بس ایک خواب کہ اس قریۂ بدن سے ہنوز
نواحِ دل تلک اِک راستہ سا آتا ہُوا
ضیا المصطفیٰ ترک
No comments:
Post a Comment