وہ ہوئے پردہ نشیں انجمن آرا ہو کر
رہ گیا میں ہمہ تن چشمِ تمنا ہو کر
حسن نے عشق پہ حیرت کی نگاہیں ڈالیں
خود تماشا ہوئے ہم محوِ تماشا ہو کر
آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رکا
کوئی ہو، دردِ محبت کا مداوا کر دے
ملک الموت ہی آ جائے مسیحا ہو کر
کچھ تعجب نہیں کعبے میں اگر جی نہ لگے
آئے ہیں ہم طرفِ دیر و کلیسا ہو کر
رنگ و روغن پہ نگاہیں نہ کبھی للچائیں
مجھ کو دنیا نظر آتی رہی دنیا ہو کر
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment