دوستو کیا ہے تکلف مجھے سر دینے میں
سب سے آگے ہوں میں کچھ اپنی خبر دینے میں
پھینک دیتا ہے ادھر پھول وہ گاہے گاہے
جانے کیا دیر ہے دامن مِرا بھر دینے میں
سیکڑوں گمشدہ دنیائیں دکھادیں اس نے
شاعری کیا ہے کہ اک عمر گنوائی ہم نے
چند الفاظ کو امکان و اثر دینے میں
بات اک آئی ہے دل میں نہ بتاؤں اس کو
عیب کیا ہے مگر اظہار ہی کر دینے میں
اسے معلوم تھا اک موج مِرے سر میں ہے
وہ جھجھکتا تھا مجھے حکمِ سفر دینے میں
میں ندی پار کروں سوچ رہا ہوں بانیؔ
موج مصروف ہے پانی کو بھنور دینے میں
منچندا بانی
No comments:
Post a Comment