آتشِ غم نے ملکِ دل پھونک دیا، جلا دیا
باقی جو کچھ کہ رہ گیا اشک نے لے بہا دیا
کہتے تھے ہم کہ روزِ ہجر کہتے ہیں کس کو کیا ہے چیز
ہائے فلک نے سو وہ دن آج ہمیں دِکھا دیا
ایک یہی چراغِ دل جلتا تھا میرے حال پر
آہِ سحر نے میری آہ اس کو بھی اب بجھا دیا
جان و دل و قرار و ہوش جو جو متاع خاص تھے
رہزنِ چشم نے تِری پل میں اسے لُٹا دیا
اور جو کچھ تھا سو تو تھا لیکن یہ عین ظلم ہے
آنکھوں نے تیری جو مجھے نظروں سے اب گرا دیا
مۓ کشوں میں تو شیخ آج آ ہی پھنسا تھا شکر کر
داڑھی پہ تیری رحم کر ہم نے تجھے بچا دیا
ٹکڑے جگر ہے کیوں تِرا غنچے کی طرح اے حسنؔ
زہر غمِ فراق کا کس نے تجھے پلا دیا
میر حسن دہلوی
باقی جو کچھ کہ رہ گیا اشک نے لے بہا دیا
کہتے تھے ہم کہ روزِ ہجر کہتے ہیں کس کو کیا ہے چیز
ہائے فلک نے سو وہ دن آج ہمیں دِکھا دیا
ایک یہی چراغِ دل جلتا تھا میرے حال پر
آہِ سحر نے میری آہ اس کو بھی اب بجھا دیا
جان و دل و قرار و ہوش جو جو متاع خاص تھے
رہزنِ چشم نے تِری پل میں اسے لُٹا دیا
اور جو کچھ تھا سو تو تھا لیکن یہ عین ظلم ہے
آنکھوں نے تیری جو مجھے نظروں سے اب گرا دیا
مۓ کشوں میں تو شیخ آج آ ہی پھنسا تھا شکر کر
داڑھی پہ تیری رحم کر ہم نے تجھے بچا دیا
ٹکڑے جگر ہے کیوں تِرا غنچے کی طرح اے حسنؔ
زہر غمِ فراق کا کس نے تجھے پلا دیا
میر حسن دہلوی
No comments:
Post a Comment