اب وہ نوید ہی نہیں صوتِ ہزار کیا کرے
نخلِ امید ہی نہیں،۔ ابر بہار کیا کرے
دن ہو تو مہر جلوہ گر، شب ہو تو انجم و قمر
پردے ہی جب ہوں پردہ در، روئے نگار کیا کرے
عشق نہ ہو تو دل لگی، موت نہ ہو تو خودکشی
اہلِ ہوس بھی ہیں بہت، خیر نظر نہ آئیے
یہ تو مگر بتائیے، عاشقِ زار کیا کرے
موت نے کس امید پر سونپ دئیے ہیں بحر و بر
مشتِ غبار ہے بشر،۔ مشتِ غبار کیا کرے
شمع بھی ہے رہینِ یاس، پھول بھی ہیں اداس اداس
کوئی نہیں ہے آس پاس، کنجِ مزار کیا کرے
گریۂ شرم واہ واہ، فردِ عمل ہوئی تباہ
دیکھئے اک یہی گناہ، روزِ شمار کیا کرے
اپنے کئے پہ بار بار کون ہو روز شرمسار
مل گیا عذر پائیدار، قول و قرار کیا کرے
حدِ ہنر نہیں حفیظؔ تیرے خیال میں کوئی
اہلِ کمال میں کوئی تجھ کو شمار کیا کرے
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment