بتانِ شہر سے اب کوئی سلسلہ بھی نہیں
خدا گواه کہ دل کو یہ حوصلہ بھی نہیں
کبھی تو بام سے آغوش میں اتر آؤ
کوئی سفر تو نہیں کوئی فاصلہ بھی نہیں
یہ کن کو زخم دکھاتے ہو اپنے سینوں کے
لہو میں ڈوب کے طے کی ہیں منزلیں تنہا
سلوکِ ہم سفراں کا کوئی گلہ بھی نہیں
چمن میں لوٹ مچی ہے پہ باغباں چپ ہے
غریبِ شہر کے بس کا معاملہ بھی نہیں
تِرے وصال کی دولت پہ ناز ہے، لیکن
مِری وفاؤں کا سوچو تو یہ صلہ بھی نہیں
جعفر طاہر
No comments:
Post a Comment