Monday 20 June 2016

بتان شہر سے اب کوئی سلسلہ بھی نہیں

بتانِ شہر سے اب کوئی سلسلہ بھی نہیں
خدا گواه کہ دل کو یہ حوصلہ بھی نہیں
کبھی تو بام سے آغوش میں اتر آؤ
کوئی سفر تو نہیں کوئی فاصلہ بھی نہیں
یہ کن کو زخم دکھاتے ہو اپنے سینوں کے
یہ جن کے پاؤں میں اک آدھ آبلہ بھی نہیں
لہو میں ڈوب کے طے کی ہیں منزلیں تنہا
سلوکِ ہم سفراں کا کوئی گلہ بھی نہیں
چمن میں لوٹ مچی ہے پہ باغباں چپ ہے
غریبِ شہر کے بس کا معاملہ بھی نہیں
تِرے وصال کی دولت پہ ناز ہے، لیکن
مِری وفاؤں کا سوچو تو یہ صلہ بھی نہیں

جعفر طاہر

No comments:

Post a Comment