Thursday 30 June 2016

ستارے بے خود و سرشار تھے کل شب جہاں میں تھا

ستارے بیخود و سرشار تھے کل شب جہاں میں تھا
اندھیرے رو کشِ انوار تھے، کل شب جہاں میں تھا
مسائل زندگی کے جو کبھی سیدھے نہ ہوتے تھے
سراسر سہل اور ہموار تھے، کل شب جہاں میںتھا
اگرچہ محتسب بھی ان گنت تھے اس شبستان میں
مگر سب میکشوں کے یار تھے، کل شب جہاں میں تھا
جوانی محوِ آرائش تھی پوری خود نمائی سے
دو عالم آئینہ بردار تھے، کل شب جہاں میں تھا
گدازِ قربتِ اصنام سے دل پگھلے جاتے تھے
نفس صہبا، بدن گلنار تھے، کل شب جہاں میں تھا
گماں ہوتا تھا شاید زندگی پھولوں کا گجرا ہے
گلوں کے اس قدر انبار تھے، کل شب جہاں میں تھا
طلب میں جن کی عمریں صرف کر دیں دیر و کعبہ میں
وہ مہ پیکر گلے کا ہار تھا، کل شب جہاں میں تھا
جبینوں کی دمک، زلفوں کی ٹھنڈک، جسم کی خوشبو
غرض یہ ہے بڑے غمخوار تھے، کل شب جہاں میں تھا
صدا دی تھی غم، دوراں کو لیکن کون آتا تھا
نگار و مطرب و میخوار تھے، کل شب جہاں میں تھا
فرشتے تو فرشتے ہیں، مشیت کے ارادے بھی
مِری تعظیم کو تیار تھے، کل شب جہاں میں تھا
عدمؔ مت پوچھ کیا کیفیتیں تھیں ذہن پر طاری
نشاطِ روح کے معمار تھے، کل شب جہاں میں تھا

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment