Saturday, 25 June 2016

دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا

دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا
ذرا سے لمس نے روشن کیا بدن اس کا
وہ خاک اڑانے پہ آئے تو سارے دشت اس کے
چلے گداز قدم تو چمن چمن اس کا
وہ جھوٹ سچ سے پرے رات کچھ سناتا تھا
دلوں میں راست اترتا گیا سخن اس کا
عجیب آب و ہوا کا وہ رہنے والا ہے
ملے گا خواب و خلا میں کہیں وطن اس کا
تِری طرف سے نہ کیا کیا ستم ہوئے اس پر
میں جانتا ہوں بہت دوست بھی نہ بن اس کا
وہ روز شام سے شمعیں دھواں اس کی
وہ روز صبح اجالا کرن کرن اس کا
مِری نظر میں ہے محفوظ آج بھی بانیؔ
بدن کسا ہوا ملبوس بے شکن اس کا

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment