دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا
ذرا سے لمس نے روشن کیا بدن اس کا
وہ خاک اڑانے پہ آئے تو سارے دشت اس کے
چلے گداز قدم تو چمن چمن اس کا
وہ جھوٹ سچ سے پرے رات کچھ سناتا تھا
دلوں میں راست اترتا گیا سخن اس کا
عجیب آب و ہوا کا وہ رہنے والا ہے
ملے گا خواب و خلا میں کہیں وطن اس کا
تِری طرف سے نہ کیا کیا ستم ہوئے اس پر
میں جانتا ہوں بہت دوست بھی نہ بن اس کا
وہ روز شام سے شمعیں دھواں اس کی
وہ روز صبح اجالا کرن کرن اس کا
مِری نظر میں ہے محفوظ آج بھی بانیؔ
بدن کسا ہوا ملبوس بے شکن اس کا
منچندا بانی
ذرا سے لمس نے روشن کیا بدن اس کا
وہ خاک اڑانے پہ آئے تو سارے دشت اس کے
چلے گداز قدم تو چمن چمن اس کا
وہ جھوٹ سچ سے پرے رات کچھ سناتا تھا
دلوں میں راست اترتا گیا سخن اس کا
عجیب آب و ہوا کا وہ رہنے والا ہے
ملے گا خواب و خلا میں کہیں وطن اس کا
تِری طرف سے نہ کیا کیا ستم ہوئے اس پر
میں جانتا ہوں بہت دوست بھی نہ بن اس کا
وہ روز شام سے شمعیں دھواں اس کی
وہ روز صبح اجالا کرن کرن اس کا
مِری نظر میں ہے محفوظ آج بھی بانیؔ
بدن کسا ہوا ملبوس بے شکن اس کا
منچندا بانی
No comments:
Post a Comment