Saturday 25 June 2016

کیا جانے کس آنے والے دور کی یہ تیاری ہے

کیا جانے کس آنے والے دور کی یہ تیاری ہے
حال کا لمحہ لمحہ ماضی کی صدیوں پر بھاری ہے
فصلِ بہاراں کے چہرے پر جس کے سبب گلکاری ہے
درد سوز وہی ہر موجِ خزاں میں جاری ساری ہے
اپنا جینا راز ہوا جاتا ہے کیوں اے اہلِ چمن
لوگ اسے مجبوری جانیں ہم سمجھیں مختاری ہے
مستقبل سے یہ مایوسی ماضی سے یہ امید
جس کا کوئی علاج نہیں ہے، ایسی بیماری ہے
جشن شبی یہ کیا ہے اے ساقئ محفل! کچھ تو بتا
محفل کی محفل پر کیوں اک بیہوشی کی طاری ہے
جاگنے والو! روزِ ازل سے ہم تو نیند کے ماتے ہیں
تم ہی کہو کچھ اپنا عالم خواب ہے یا بیداری ہے
کم نہ سمجھ وجدان کو پیارے عقل پہ اتنا ناز نہ کر
اس کا بھروسہ کر نہ زیادہ یہ تلوار دو دھاری ہے
اس نقاد سے مل کر جی کچھ خوش نہ ہو آزادؔ کہ جو
علم کا بوجھ لیے پھرتا ہے ذوقِ سخن سے عاری ہے

جگن ناتھ آزاد

No comments:

Post a Comment