اے بھٹکتے ہوئے بجرے دل کے
دیکھ پھر خواب کسی ساحل کے
بھول بیٹھا تھا میں اس کو پا کر
اک حقیقت ہے بچھڑنا مل کے
خواہشیں، آرزوئیں، مایوسی
کیا کہیں، کیسے کہیں، کچھ نہ کہیں
کتنے پہلو فقط اک مشکل کے
سر پٹکتی رہی خوشبو، لیکن
نہ کھلے اس پہ دریچے دل کے
نہ رہی زیست کی تہمت بھی کمالؔ
ہم ہیں ممنون بہت قاتل کے
حسن اکبر کمال
No comments:
Post a Comment