Tuesday, 21 June 2016

سہ نہ پاؤ گے زمانے کے نئے آزار تم

سہ نہ پاؤ گے زمانے کے نئے آزار تم
بچ کے نکلو شہر کہ گلیوں سے میرے یار تم
حوصلہ رکھو نئی قدروں میں جینے کا میاں
مِٹ گئی تہذیب ساری،. ہو گئے بیمار تم
روز و شب ماضی پرستی بزدلی کا نام ہے
صفحۂ ہستی پہ آج کند سی تلوار تم
شہر میں گر جی نہیں لگتا تو جاؤ گاؤں میں
کچی سڑکوں پر کھڑے ہو کر گنو اشجار تم
پھاڑ کر اسنادِ تعلیمی لیاقت کے جمالؔ
اک دُکاں کھولو سیاست کی سرِ بازار تم

جمال اویسی

No comments:

Post a Comment