سہ نہ پاؤ گے زمانے کے نئے آزار تم
بچ کے نکلو شہر کہ گلیوں سے میرے یار تم
حوصلہ رکھو نئی قدروں میں جینے کا میاں
مِٹ گئی تہذیب ساری،. ہو گئے بیمار تم
روز و شب ماضی پرستی بزدلی کا نام ہے
شہر میں گر جی نہیں لگتا تو جاؤ گاؤں میں
کچی سڑکوں پر کھڑے ہو کر گنو اشجار تم
پھاڑ کر اسنادِ تعلیمی لیاقت کے جمالؔ
اک دُکاں کھولو سیاست کی سرِ بازار تم
جمال اویسی
No comments:
Post a Comment