Monday 27 June 2016

ذرا سا امکان کس قدر تھا

ذرا سا امکان کس قدر تھا
فضا میں ہیجان کس قدر تھا
میں کس قدر تھا قریب اس کے
وہ میری پہچان کس قدر تھا
لباس پر تھا ذرا سا اک داغ
بدن پریشان کس قدر تھا
یہی کہ اس سے کبھی نہ ٹوٹے
ہمیں کہ اک دھیان کس قدر تھا
نجانے کیا لوگ بچھڑے ہوں گے
وہ موڑ سنسان کس قدر تھا
وہ سارے غم کیا ہوئے خدایا
یہ دل کہ گنجان کس قدر تھا
بحال ہو جائیں پھر وہ رشتے
اسے بھی ارمان کس قدر تھا
بھٹک گئے کتنے لوگ بانیؔ
نئے کا رجحان کس قدر تھا

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment