Saturday, 18 June 2016

انوکھی معرفت اندھوں کو حاصل ہوتی جاتی ہے

انوکھی معرفت اندھوں کو حاصل ہوتی جاتی ہے
حقیقت تھی جو کل تک آج باطل ہوتی جاتی ہے
بلندی کیا ہے، پستی کیا، ہوا کی کارفرمائی
سراسر موجِ دریا غرقِ ساحل ہوتی جاتی ہے
برائی میں بھلائی دیکھتا جاؤں مگر کب تک
یہ کیسی دولتِ عرفاں کہ نازل ہوتی جاتی ہے
نہ کترائے نہ بل کھائے تو پھر دھارا کدھر جائے
ارے یہ کیا کہ راہِ راست مشکل ہوتی جاتی ہے
کہاں لے جائی گی یہ وسعتِ آفاق، کیا جانے
مکان و لامکاں سے دور منزل ہوتی جاتی ہے
محبت کا مزہ بگڑا کہ نیت بھر گئی اپنی
طبیعت جانے کیوں تلخی پہ مائل ہوتی جاتی ہے
گناہِ عشق، امرِ اضطراری کے سوا کیا تھا
مگر توفیقِ رسوائی بھی شامل ہوتی جاتی ہے
مجھے دیکھو تو سمجھو حُسن کے معنئ وجدانی
وہ معنی جس سے روشن خلوتِ دل ہوتی جاتی ہے
زہے شانِ خداوندی، گنہ گاروں پہ یہ رحمت
غضب ہے پارسائی اور مشکل ہوتی جاتی ہے
نظر پڑنے لگی میری بھی اپنے شیشۂ دل پر
جوانی ان کی آئینے کے قابل ہوتی جاتی ہے
مرے دل میں لگا کر آگ، آنکھیں سینکنے والے
تری چشمِ توجہ اور قاتل ہوتی جاتی ہے
چلو تم بھی سنو شورِ ولا بزمِ یگانہؔ میں
چھِڑا سازِ محبت، گرم محفل ہوتی جاتی ہے
یگانہؔ لکھنؤ کی سیر کر آتے تو اچھا تھا
طبیعت سان پر چڑھنے کے قابل ہوتی جاتی ہے

یاس یگانہ

No comments:

Post a Comment