کس سے تسکینِ دلِ ناشاد ہو
ان کو گر بھُولیں تو کس کی یاد ہو
دلربائی کون سکھلائے تمہیں
تم تو ان باتوں کے خود استاد ہو
کچھ نہیں لذت پرانے جور میں
ہم کو بے کھٹکے نہیں رہنا ضرور
دام رہ میں، گھات میں صیاد ہو
میرے ہوتے میں بلایا غیر کو
تم تو صاحب جامعِ اضداد ہو
غیر دل کو گر نہیں دیتا نہ دے
میں بجا لاؤں جو کچھ ارشاد ہو
ہے فزوں تلوار سے زخمِ زباں
ناصحو! تم بدتر از جلاد ہو
غیر سے کرتے ہو بوسوں کا سلوک
مجھ سے مفلس کی بھی کچھ امداد ہو
پہلے کچھ آئے تھے جو اب آؤ گے
جھوٹے وعدوں سے کوئی کیا شاد ہو
حسرتِ دیدار کٹ جائے مری
تیز ایسا خنجرِ فولاد ہو
پائے شیریں میں اگر مہندی کی جا
کیا عجب خونِ سرِ فرہاد ہو
ایک جا پر چین سے بیٹھا تو ہے
کیا کرے گر مرغِ دل آزاد ہو
تارکِ الفت ہوں اب پھر دیکھیے
اُس کے منہ دیکھے پہ کیا روداد ہو
تھا برا مجروحؔ پر اتنا نہیں
جس کے مرنے کی مبارک باد ہو
میر مہدی مجروح
No comments:
Post a Comment