دونوں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے بھاری پتھر
مارنے آئے ہیں عیسیٰ کو حواری پتھر
میں نے جو تیرے تصور میں تراشے تھے کبھی
لے گئے وہ بھی مرے گھر سے پجاری پتھر
آدمی آج کہیں جائے تو کیوں کر جائے
سب سے پہلے مرے بھائی نے ہی پھینکا مجھ پر
پہلا پتھر ہی مجھے ہو گیا کاری پتھر
رحم اے گردشِ دوراں! یہ تماشا کیا ہے
پھول سے شانوں پہ کرتے ہیں سواری پتھر
جب کبھی غنچہ کھِلا، کوئی کلی چٹکی ہے
لے کے پہنچی ہے وہیں بادِ بہاری پتھر
دل ہے اس آہوئے درماندہ و بے کس کی طرح
مارتے ہیں جسے مل مل کے شکاری پتھر
سینۂ سنگ سے دریا نہیں بہتے دیکھے
کون کہتا ہے کہ ہیں درد سے عاری پتھر
ناز ہر بت کے اٹھا پائے نہ جعفر طاہرؔ
چوم کر چھوڑ دئیے ہم نے یہ بھاری پتھر
جعفر طاہر
No comments:
Post a Comment