Friday 17 June 2016

جاگتی آنکھوں کے خواب

جاگتی آنکھوں کے خواب

نقشِِ خیال کی رہگزر پر
بیتے لمحوں کی آہٹیں
تنہائی کی گرد میں لپٹی ہوئی
کچھ یادوں کا ہجوم
جیسے بادلوں کی اوٹ میں
اداس ماہتاب کا عکس

فصیلِ شب پر جلتے ہوئے امیدوں کے چراغ
جیسے تاریکیوں میں جگنووں کے رقص
ہواؤں کے ریشمی آنچل
کسی مانوس خوشبو سے مہکے ہوئے
پھر رتجگوں کے موسم میں
جاگتی آنکھوں کے خواب
تیری یادوں میں دھل کر نکھر گئے
درِ دل پر کوئی نرم سی دستک
جیسے پتوں پہ کوئی شبنمی سالمس
ان جنوں خیز لمحوں کا فسوں
گویا خوابِ حقیقت میں ڈھل گیا
لمحاتِ وصل کے گلاب
تیرے عارض و رخسار کا آئینہ ہوئے
پھر ہجر و فراق کی ایک شام
وہیں پر ڈوب گئی
وصل کی ایک سحر جہاں سے پھوٹی تھی
تم نے وہیں سے شاید اسے جوڑ دیا
ہاتھوں کی زنجیر جہاں سی ٹوٹی تھی

سید شہزاد ناصر

No comments:

Post a Comment