Thursday 30 June 2016

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھُلا دیا، ہم نہ تمہیں بھُلا سکے
تم ہی نہ سن سکے اگر، قصۂ غم سنے گا کون
کس کی زباں کھُلے گی پھر، ہم نہ اگر سنا سکے
ہوش میں آ چکے تھے ہم، جوش میں آ چکے تھے ہم
بزم کا رنگ دیکھ کر، سر نہ مگر اٹھا سکے
رونقِ بزم بن گئے، لب پہ حکایتیں رہیں
دل میں شکایتیں رہیں، لب نہ مگر ہِلا سکے
شوقِ وصال سے یہاں، لب پہ سوال ہے یہاں
کس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر مِلا سکے
ایسا ہو کوئی نامہ بر، بات پہ کان دھر سکے
سن کے یقین کر سکے، جا کے انہیں سنا سکے
عجز سے اور بڑھ گئی برہمئ مزاجِ دوست
اب وہ کرے علاجِ دوست جسکی سمجھ میں آ سکے
اہلِ زباں تو ہیں بہت، کوئی نہیں ہے اہلِ دل
کون تِری طرح حفیظؔ! درد کے گیت گا سکے

حفیظ جالندھری

No comments:

Post a Comment