Saturday, 11 June 2016

تو نے بت ہرجائی کچھ ایسی ادا پائی

تُو نے بتِ ہرجائی، کچھ ایسی ادا پائی
تکتا ہے تیری صورت ہر ایک تماشائی
پہلے سے نہ سوچا تھا انجام محبت کا
تب ہوش میں آئے ہیں جب جان پہ بن آئی
جی بھر گیا دنیا سے، اب دل میں یہ حسرت ہے
میں ہوں یا تیرا جلوہ، اور گوشۂ تنہائی
طعنو ں سے ہے دل زخمی، زخموں سے جگر خوں ہے
لو دل کے لگانے کی ہم نے یہ سزا پائی
مدت سے امیر ان سے ملنے کی تمنا تھی
آج اس نے بلایا ہے، لینے کو قضا آئی

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment