زندگی تیرے لیے خاک بہت چھانی ہے
تُو بھی میرے لیے اک وجہِ پریشانی ہے
میں نے بھی دیکھ لیا نقش و نگارِ دنیا
دیدنی اتنی نہیں جتنی ثنا خوانی ہے
غرق ہوتا ہے دریاؤں میں صحرائے وجود
میں نے مانگا تھا بہت اس نے دیا ہے کچھ کم
قحطِ اکرام میں خواہش کی فراوانی ہے
وقت کے بارے میں کب سوچتے ہیں ہم ویسے
یہ تواریخ کا راقم نہیں،۔۔۔ زندانی ہے
جمال اویسی
No comments:
Post a Comment