Saturday 18 June 2016

کچھ پاس جب رہا نہ انہیں رسم و راہ کا

کچھ پاس جب رہا نہ انہیں رسم و راہ کا
جاتا رہا خیال ہمیں بھی نباہ کا
ہوتا نہیں ہے کچھ بھی اثر میری آہ کا
کیا دل سیاہ ہے فلکِ روسیاہ کا
تم آج یوں بدل گئے یہ کل کی بات ہے
کھا کھا کے قسمیں عہد کیا تھا نباہ کا
زاہد کو بھی پلائی ہے پینے سے پیشتر
کفارہ دے چکا ہوں میں پہلے گناہ کا
گزری شبِ فراق تو کی میں نے یہ دعا
پھر منہ خدا دکھائے نہ اس روسیاہ کا
مجھ سے کبھی ملی کبھی اغیار سے لڑی
کیونکر ہو اعتبار کسی کی نگاہ کا
لوہے کا بھی جگر ہو تو یہ اُس میں گھر کرے
کیا بے پناہ توڑ ہے تیرِ نگاہ کا
ہُو حق کا شور چار طرف سے بلند ہے
آتا ہے میکدے میں مزہ خانقاہ کا
شاید کہ پڑھ رہے ہیں غزل حضرتِ حفیظ
بزمِ سخن میں شور ہے اک واہ واہ کا

حفیظ جونپوری

No comments:

Post a Comment