ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا
کہ بزمِ مے میں کوئی پارسا اب تک نہیں آیا
ستم بھی لطف ہو جاتا ہے بھولے پن کی باتوں میں
تجھے اے جان! اندازِ جفا اب تک نہیں آیا
گیا تھا کہہ کے یہ قاصد کہ الٹے پاؤں آتا ہوں
ستم کرنا، دغا کرنا، کہ وعدے کا وفا کرنا
بتاؤ، کیا تمہیں آیا ہے، کیا اب تک نہیں آیا؟
بتا دیں آ گیا کیا تم کو اس اٹھتی جوانی میں
بتا دیں کان میں چپکے سے کیا اب تک نہیں آیا
وہ دن آئے مِرے سرکار اہلِ بزم سے پوچھیں
کہاں ہے کیوں ریاضِ خوش نوا اب تک نہیں آیا
ریاض خیر آبادی
No comments:
Post a Comment