ساقیا! عید ہے لا بادے سے مینا بھر کے
کہ مۓ آشام پیاسے ہیں مہینا بھر کے
آشناؤں سے اگر ایسے ہی بے زار ہو تُم
تو ڈبو دو انہیں دریا میں سفینا بھر کے
عقدِ پرویں ہے کہ اس حقۂ پرویں میں ملک
دل ہے، آئینہ صفا چاہیے رکھنا اس کا
زنگ سے دیکھ نہ بھر اس میں تُو کِینا بھر کے
روز اس گلشنِ رخسار سے لے جاتے ہیں گل
اپنے دامانِ نظر، مردمِ بینا بھر کے
خُمِ پر جوش کے مانند چھلکتا ہے مدام
خونِ حسرت سے لبوں تک مرا سینا بھر کے
جام خالی بھی لگا منہ سے نہ کم ظرف کے ساتھ
ذوقؔ کے ساتھ، قدح ذوق سے پینا بھر کے
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment