ہم گئے تو ملنے کو صرف ایک خار آیا
دھوم تھی گلستاں میں موسمِ بہار آیا
آج ان کی نیت پر مجھ کو بدگمانی ہے
آج میری باتوں پر ان کو اعتبار آیا
لے کے شیشہ و بربط آ بھی جاؤ اے یارو
موت مل گئی تھی کل راہ میں مجھے میں بھی
زیست کے اندھیرے کو قبر میں اتار آیا
موت کی دعائیں تم روز ہم کو دیتے تھے
اب تو ہو گئی تسکیں، اب تو کچھ قرار آیا
فیصلہ عدمؔ اپنا رکھ دیا تھا دنیا پر
وہ بھی شرمسار آئے، میں بھی شرمسار آیا
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment