Saturday, 18 June 2016

جنت کی آرزو ہے نہ حوروں کی چاہ ہے

جنت کی آرزو ہے نہ حوروں کی چاہ ہے
محشر میں بھی تمہیں پہ ہماری نگاہ ہے
اب ان سے دور دور کی کچھ رسم و راہ ہے
یہ دوستی نہیں ہے فقط اک نباہ ہے
صبحِ شبِ وصال ہے غصہ بھی شرم بھی
ترچھی نگاہ ہے، کبھی نیچی نگاہ ہے
عاشق کی بے کسی کا تو عالم نہ پوچھیے
مجنوں پہ جو گزر گئی، صحرا گواہ ہے
مظلوم بن کے آئے تو مجرم ٹھہر گئے
الٹے ہمیں سے حشر میں وہ داد خواہ ہے
توبہ خدانخواستہ تم اور عشقِ غیر
میرا غلط گمان،۔ غلط اشتباہ ہے
واعظ! اگر صراط کا کرنا تھا تذکرہ
یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ محبت کی راہ ہے
آتا ہے مجھ کو یاد بہت نامہ بر مرا
جب دیکھتا ہوں کوئی کبوتر تباہ ہے
ہم اپنی آن میں ہیں تو وہ اپنی شان میں
دو ضدیوں کے بیچ میں مشکل نباہ ہے
لو دل بھی کہہ رہا ہے انہیں کی سی حشر میں
خاصا یہ مدعی ہے کہ میرا گواہ ہے
میں نے کیا جو جرم کا اقرار حشر میں
رحمت پکار اٹھی یہ کوئی بے گناہ ہے
اے رہروانِ کوچۂ جاناں! جواب دو
تم کو پکارتا کوئی گم کردہ راہ ہے
بلوائیں وہ تو گھٹتی ہے شاں انکی اے حفیظؔ
جاتے ہیں خود تو وضع یہاں سدِ راہ ہے

حفیظ جونپوری

No comments:

Post a Comment