خواب کدھر چلا گیا، یاد کہاں سما گئی
چشم و چراغِ عشق کو کون ہوا بجھا گئی
ہجر تو جاگتا رہا روح کے درد زار میں
جسم کی خوابگاہ میں وصل کو نیند آ گئی
وقت نے ختم کر دیے سارے وسیلے شوق کے
نرم لبوں سے سخت بات ایسے ادا ہوئی کہ بس
شہد میں مل گیا نمک، دن میں ہی رات چھا گئی
رنگ برنگ تتلیو! اب کسے ڈھونڈتی ہو تم
خوشبو کو لے گئی ہوا، پھول کو خاک کھا گئی
ہم تو بس اچھے دوست تھے، ہم تو بس اچھے دوست ہیں
پھر یہ ہمارے درمیاں پرِیت کہاں سے آ گئی
ایک تمہارے دل میں تھا، ایک تھا میری آنکھ میں
آندھی چلی فراق کی، دونوں گھروندے ڈھا گئی
جسم تو خیر جسم تھا، جسم کا تذکرہ ہی کیا
ایک نگاہ میں وہ آنکھ روح کے بھید پا گئی
بھولی ہوئی صدا کا چاند صحن میں چمکا یا بجھا
گزرے ہوئے دنوں کی یاد دھیان میں آئی یا گئی
صبر کی رہگزار پر ایسے مِلی شبِ طلب
مجھ کو بھی ڈگمگا دیا، آپ بھی لڑکھڑا گئی
چشمِ زدن میں دو جہاں جیسے الٹ کے رہ گئے
آنکھ جھکی تو حشر اٹھا، آنکھ اٹھی تو چھا گئی
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment