Sunday, 12 June 2016

پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا

 پوچھتے کیا ہو جو حالِ شبِ تنہائی تھا

رخصتِ صبر تھی یا ترکِ شکیبائی تھا

شبِ فرقت میں دلِ غمزدہ بھی پاس نہ تھا

وہ بھی کیا رات تھی، کیا عالمِ تنہائی تھا

میں تھا یا دیدۂ خوننابہ فشاں تھی شبِ ہجر

ان کو واں مشغلۂ انجمن آرائی تھا

پارہ ہائے دلِ خونیں کی طلب تھی پیہم

شب جو آنکھوں کو مِرے ذوقِ خود آرائی تھا

رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو

قیس کو کہتے ہیں، مجنون تھا صحرائی تھا

آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا

لب میں اے جان تو اعجازِ مسیحائی تھا

خون رو رو دے بس دو ہی  قدم میں چھالے

یاں وہی حوصلۂ بادیہ پیمائی تھا

دشمنِ جاں تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج

اور ادھر ایک اکیلا تِرا شیدائی تھا

انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رخ پیہم

جس طرح بزم میں وہ کافرِ ترسائی تھا

کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقشِ قدم

چشمِ عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا

خوب وقت آئے نکیرین جزا دے گا خدا

لحدِ تیرہ میں کیا عالمِ تنہائی تھا

ہم نے بھی حضرت شبلی کی زیارت کی تھی

یوں تو ظاہر میں مقدس تھا پہ شیدائی تھا


شبلی نعمانی

No comments:

Post a Comment