لو آج سمندر کے کنارے پہ کھڑا ہوں
غرقاب سفینوں کے سسکنے کی صدا ہوں
اک خاک بہ سر برگ ہوں ٹہنی سے جدا ہوں
جوڑے گا مجھے کون کہ میں ٹوٹ گیا ہوں
اب بھی مجھے اپنائے نہ دنیا تو کروں کیا
مستقلِ بت خانہ کا حافظ ہے خدا ہی
ہر بت کو یہ دعویٰ ہے کہ اب میں ہی خدا ہوں
افکار دو عالم نہ جھنجوڑیں مجھے اس وقت
اپنے ہی خیالات کی دلدل میں پھنسا ہوں
منزل کا تو عرفاں نہیں اتنی خبر ہے
جس سمت سے آیا تھا اسی سمت چلا ہوں
مدت ہوئی گزرا تھا ادھر سے مِرا سایہ
کب سے یوں ہی فٹ پاتھ پہ خاموش پڑا ہوں
ہوں آپ کا بس مجھ کو ہے اتنا ہی غنیمت
اس سے کوئی مطلب نہیں اچھا کہ برا ہوں
پہناؤ مِرے پاؤں میں زنجیر بوئے گل
آوارہ چمن میں صنعت باد صبا ہوں
چھیڑو نہ مجھے جان ضیاؔ فصل جنوں میں
کیا میں بھی کوئی نغمۂ اندوہ رہا ہوں
ضیا فتح آبادی
No comments:
Post a Comment