Wednesday, 1 June 2016

لو آج سمندر کے کنارے پہ کھڑا ہوں

لو آج سمندر کے کنارے پہ کھڑا ہوں
غرقاب سفینوں کے سسکنے کی صدا ہوں
اک خاک بہ سر برگ ہوں ٹہنی سے جدا ہوں
جوڑے گا مجھے کون کہ میں ٹوٹ گیا ہوں
اب بھی مجھے اپنائے نہ دنیا تو کروں کیا
ماحول سے پیمانِ وفا باندھ رہا ہوں
مستقلِ بت خانہ کا حافظ ہے خدا ہی
ہر بت کو یہ دعویٰ ہے کہ اب میں ہی خدا ہوں
افکار دو عالم نہ جھنجوڑیں مجھے اس وقت
اپنے ہی خیالات کی دلدل میں پھنسا ہوں
منزل کا تو عرفاں نہیں اتنی خبر ہے
جس سمت سے آیا تھا اسی سمت چلا ہوں
مدت ہوئی گزرا تھا ادھر سے مِرا سایہ
کب سے یوں ہی فٹ پاتھ پہ خاموش پڑا ہوں
ہوں آپ کا بس مجھ کو ہے اتنا ہی غنیمت
اس سے کوئی مطلب نہیں اچھا کہ برا ہوں
پہناؤ مِرے پاؤں میں زنجیر بوئے گل
آوارہ چمن میں صنعت باد صبا ہوں
چھیڑو نہ مجھے جان ضیاؔ فصل جنوں میں
کیا میں بھی کوئی نغمۂ اندوہ رہا ہوں

ضیا فتح آبادی

No comments:

Post a Comment