ان کے جاتے ہی وحشت کا اثر دیکھا کیے
سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کیے
دل کو وہ کیا دیکھتے، سوزِ جگر دیکھا کیے
لگ رہی تھی آگ جس گھر میں وہ گھر دیکھا کیے
ان کی محفل میں انھیں سب رات بھر دیکھا کیے
تم سرہانے سے گھڑی بھر کے لیے منہ پھیر لو
دم نہ نکلے گا مِری صورت اگر دیکھا کیے
میں کچھ اس حالت سے ان کے سامنے پہنچا کہ وہ
گو مِری صورت سے نفرت تھی مگر دیکھا کیے
فائدہ کیا ایسی شرکت سے عدو کی بزم میں
تم ادھر دیکھا کیے، اور ہم ادھر دیکھا کیے
شام سے یہ تھی تِرے بیمار کی حالت کہ لوگ
رات بھر اٹھ اٹھ کے آثار سحر دیکھا کیے
بس ہی کیا تھا بے زباں کہتے ہی کیا صیاد سے
یاس کی نظروں سے مڑ کر اپنا گھر دیکھا کیے
موت آ کر سامنے سے لے گئی بیمار کو
دیکھئے چارہ گروں کو چارہ گر دیکھا کیے
رات بھر تڑپا کیا ہے دردِ فرقت سے قمرؔ
پوچھ تاروں سے تارے رات بھر دیکھا کیے
استاد قمر جلالوی
No comments:
Post a Comment