ملنے کی تیرے دل میں ہیں گی ہوائیں کیا کیا
مانگی ہیں تیرے حق میں حق سے دعائیں کیا کیا
دکھ درد ٹیس جلنا رہ رہ کے پھر لپکنا
پھوڑا ہے دل نہیں ہے تجھ کو سنائیں کیا کیا
خوفِ رقیب و حسرت عجز و نیاز و منت
تن چاک سینہ سوزاں، دل داغ چشم گریاں
تُو دیکھتا نہیں ہے، تجھ کو دکھائیں کیا کیا
لے سر سے تا بہ سینہ سینے سے تا قدم تک
ہاتھوں سے اپنے لی ہیں تیری بلائیں کیا کیا
آنا تو جوں چھلاوا، دل چھل کے بھاگ جانا
ہم نے سہی ہیں کافر تیری دغائیں کیا کیا
دل موم اب ہوا ہے فرمانا میرے صاحب
بازیچہ تیری خاطر اس کا بنائیں کیا کیا
خنجر سے منہ نہ موڑا تیغے سے دم نہ مارا
اس سوزؔ نے بھی کی ہیں تجھ سے وفائیں کیا کیا
میر سوز دہلوی
No comments:
Post a Comment