Sunday 12 June 2016

ملنے کی تیرے دل میں ہیں گی ہوائیں کیا کیا

ملنے کی تیرے دل میں ہیں گی ہوائیں کیا کیا
مانگی ہیں تیرے حق میں حق سے دعائیں کیا کیا
دکھ درد ٹیس جلنا رہ رہ کے پھر لپکنا
پھوڑا ہے دل نہیں ہے تجھ کو سنائیں کیا کیا
خوفِ رقیب و حسرت عجز و نیاز و منت
جیوڑے پہ یہ اذیت آفت اٹھائیں کیا کیا
تن چاک سینہ سوزاں، دل داغ چشم گریاں
تُو دیکھتا نہیں ہے، تجھ کو دکھائیں کیا کیا
لے سر سے تا بہ سینہ سینے سے تا قدم تک
ہاتھوں سے اپنے لی ہیں تیری بلائیں کیا کیا
آنا تو جوں چھلاوا، دل چھل کے بھاگ جانا
ہم نے سہی ہیں کافر تیری دغائیں کیا کیا
دل موم اب ہوا ہے فرمانا میرے صاحب
بازیچہ تیری خاطر اس کا بنائیں کیا کیا
خنجر سے منہ نہ موڑا تیغے سے دم نہ مارا
اس سوزؔ نے بھی کی ہیں تجھ سے وفائیں کیا کیا

میر سوز دہلوی

No comments:

Post a Comment