ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو
دردِ فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہم کو
خواب میں ترے دشوار ہے آنا ہم کو
جوشِ وحشت میں ہو کیا ہم کو بھلا فکرِ لباس
بس کفایت ہے جنوں دامنِ صحرا ہم کو
رہبری کی دہنِ یار کی جانب خط نے
خضر نے چشمۂ حیواں یہ دکھایا ہم کو
دل گرا اس کے زنخداں میں فریب خط سے
چاہ خس پوش تھا اے وائے نہ سوجھا ہم کو
واہ کاہیدگئ جسم بھی کیا کام آئی
بزم میں تھے پہ رقیبوں نے نہ دیکھا ہم کو
قالبِ جسم میں جان آ گئی گویا شبلی
معجزہ فکر نے اپنی یہ دکھایا ہم کو
شبلی نعمانی
No comments:
Post a Comment