Sunday 12 June 2016

ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو

 ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو 

غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو

دردِ فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہم کو 

خواب میں ترے دشوار ہے آنا ہم کو

جوشِ وحشت میں ہو کیا ہم کو بھلا فکرِ لباس 

بس کفایت ہے جنوں دامنِ صحرا ہم کو

رہبری کی دہنِ یار کی جانب خط نے 

خضر نے چشمۂ حیواں یہ دکھایا ہم کو

دل گرا اس کے زنخداں میں فریب خط سے 

چاہ خس پوش تھا اے وائے نہ سوجھا ہم کو

واہ کاہیدگئ جسم بھی کیا کام آئی 

بزم میں تھے پہ رقیبوں نے نہ دیکھا ہم کو

قالبِ جسم میں جان آ گئی گویا شبلی 

معجزہ فکر نے اپنی یہ دکھایا ہم کو


شبلی نعمانی

No comments:

Post a Comment