Saturday 18 June 2016

کیا چل سکے گی باد مخالف مزار میں

کیا چل سکے گی بادِ مخالف مزار میں
جلتا ہے دل جلوں کا چراغ اس دیار میں
بجلی سی دوڑنے لگی پھر جسمِ زار میں
دیواریں پھاندنے لگے وحشی بہار میں
الٹی ہوا زمانے میں چلتی ہے آج کل
فرق آ گیا ہے گردشِ لیل و نہار میں
ہنستے ہیں اپنے حال پہ دیوانے آپ کے
رہتے ہیں مست پیرہنِ تار تار میں
یوسف کو لے اڑے نہ کہیں بوئے پیرہن
اخفائے حُسن و عشق نہیں اختیار میں
دیندار و بت پرست اترتے ہیں ایک گھاٹ
کیا معجزہ ہے جنبشِ ابروئے یار میں
منزل کی دھن میں آبلہ پا چل کھڑے ہوئے
شورِ جرس سے دل نہ رہا اختیار میں
ہنستا ہے ناخدا مرے انجامِ کار پر
کشتئ عمر جب نہ رہی اختیار میں
کس کل پہ ہے یہ خاک کا پُتلا بنا ہوا
کیا جانیں کیا طلسم ہے مشتِ غبار میں
لیلیٰ کجا، کجا یہ طلسماتِ عنصری
کیا ڈھونڈتا ہے پردهٔ گرد و غبار میں
پیوندِ خاک ہونے کا اللہ رے اشتیاق
اترے ہم اپنے پاؤں سے اپنے مزار میں
شرمندهٔ کفن نہ ہوئے آسماں سے ہم
مارے پڑے ہیں سایۂ دیوارِ یار میں
کہتے ہو اپنے فعل کا مختار ہے بشر
اپنی تو موت تک نہ ہوئی اختیار میں
دنیا سے یاسؔ جانے کو جی چاہتا نہیں
واللہ کیا کشش ہے اس اجڑے دیار میں

یاس یگانہ

No comments:

Post a Comment