Saturday 25 June 2016

دل کی بستی کو نہ ویران بنائے رکھنا

دل کی بستی کو نہ ویران بنائے رکھنا
کچھ نہ ہو اور تو یادوں سے سجائے رکھنا
رشتۂ درد سے پائندہ نہیں رشتہ کوئی
مِری اس بات کو سینے سے لگائے رکھنا
بجھ گئے اب کے تو شاید نہ جلیں پھر یہ کبھی
ان چراغوں کو ہواؤں سے بچائے رکھنا
خونِ دل سے کہ نمِ اشک سے ہو جیسے بھی ہو
پھول جو تم نے کھلائے ہیں کھلائے رکھنا
نہ سہی میل ملاقات کا یادوں کا سہی
ہم سے جیسے بھی بنے رشتہ بنائے رکھنا
تم ہوئے دور تو آنکھوں نے یہ فن سیکھ لیا
خشک دریاؤں میں طوفان اٹھائے رکھنا
دل کے ماحول کو ظلمت سے بچانے کے لیے
اپنی پلکوں پہ ستاروں کو سجائے رکھنا
شاید آ نکلوں کسی رات پھر اس شہر کی سمت
جو دیئے تم نے جلائے ہیں جلائے رکھنا

جگن ناتھ آزاد

No comments:

Post a Comment