دل کی بستی کو نہ ویران بنائے رکھنا
کچھ نہ ہو اور تو یادوں سے سجائے رکھنا
رشتۂ درد سے پائندہ نہیں رشتہ کوئی
مِری اس بات کو سینے سے لگائے رکھنا
بجھ گئے اب کے تو شاید نہ جلیں پھر یہ کبھی
ان چراغوں کو ہواؤں سے بچائے رکھنا
خونِ دل سے کہ نمِ اشک سے ہو جیسے بھی ہو
پھول جو تم نے کھلائے ہیں کھلائے رکھنا
نہ سہی میل ملاقات کا یادوں کا سہی
ہم سے جیسے بھی بنے رشتہ بنائے رکھنا
تم ہوئے دور تو آنکھوں نے یہ فن سیکھ لیا
خشک دریاؤں میں طوفان اٹھائے رکھنا
دل کے ماحول کو ظلمت سے بچانے کے لیے
اپنی پلکوں پہ ستاروں کو سجائے رکھنا
شاید آ نکلوں کسی رات پھر اس شہر کی سمت
جو دیئے تم نے جلائے ہیں جلائے رکھنا
جگن ناتھ آزاد
کچھ نہ ہو اور تو یادوں سے سجائے رکھنا
رشتۂ درد سے پائندہ نہیں رشتہ کوئی
مِری اس بات کو سینے سے لگائے رکھنا
بجھ گئے اب کے تو شاید نہ جلیں پھر یہ کبھی
ان چراغوں کو ہواؤں سے بچائے رکھنا
خونِ دل سے کہ نمِ اشک سے ہو جیسے بھی ہو
پھول جو تم نے کھلائے ہیں کھلائے رکھنا
نہ سہی میل ملاقات کا یادوں کا سہی
ہم سے جیسے بھی بنے رشتہ بنائے رکھنا
تم ہوئے دور تو آنکھوں نے یہ فن سیکھ لیا
خشک دریاؤں میں طوفان اٹھائے رکھنا
دل کے ماحول کو ظلمت سے بچانے کے لیے
اپنی پلکوں پہ ستاروں کو سجائے رکھنا
شاید آ نکلوں کسی رات پھر اس شہر کی سمت
جو دیئے تم نے جلائے ہیں جلائے رکھنا
جگن ناتھ آزاد
No comments:
Post a Comment