Tuesday 21 June 2016

بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں

بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں
بجلیاں بھر گئی ہیں ہاتھوں میں
صرف تیرا بدن چمکتا ہے
کالی لمبی اداس راتوں میں
کیا کیا چھینے گا اے امیرِ شہر
اتنے منظر ہیں میری آنکھوں میں
آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج
کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں
بند ہیں آج سارے دروازے
آگ روشن ہے سائبانوں میں
وہ سزا دو کہ سب کو عبرت ہو
بچ گیا ہے یہ خوشہ چینوں میں

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment