Sunday 12 June 2016

اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا

اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا
تو جیتے جی نہ لیتا نام ہرگز آشنائی کا
جو عاشق صاف ہیں دل سے انہیں کو قتل کرتے ہیں
بڑا چرچا ہے معشوقوں میں عاشق آزمائی کا
کروں اک پل میں برہم کارخانے کو محبت کے
اگر عالم میں شہرہ دوں تمہاری بے وفائی کا
جفا یا مہر جو چاہے سو کر لے اپنے بندوں پر
مجھے خطرہ نہیں ہرگز برائی یا بھلائی کا
نہ پہنچا آہ و نالہ گوش تک اس کے کبھو اپنا
بیاں ہم کیا کریں طالع کی اپنے نارسائی کا
خدایا کس کے ہم بندے کہاویں، سخت مشکل ہے
رکھے ہے ہر صنم اس دہر میں دعویٰ خدائی کا
خدا کی بندگی کا سوز ہے دعویٰ تو خلقت کو
ولے دیکھا جسے بندہ ہے اپنی خود نمائی کا

میر سوز دہلوی

No comments:

Post a Comment