اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا
تو جیتے جی نہ لیتا نام ہرگز آشنائی کا
جو عاشق صاف ہیں دل سے انہیں کو قتل کرتے ہیں
بڑا چرچا ہے معشوقوں میں عاشق آزمائی کا
کروں اک پل میں برہم کارخانے کو محبت کے
جفا یا مہر جو چاہے سو کر لے اپنے بندوں پر
مجھے خطرہ نہیں ہرگز برائی یا بھلائی کا
نہ پہنچا آہ و نالہ گوش تک اس کے کبھو اپنا
بیاں ہم کیا کریں طالع کی اپنے نارسائی کا
خدایا کس کے ہم بندے کہاویں، سخت مشکل ہے
رکھے ہے ہر صنم اس دہر میں دعویٰ خدائی کا
خدا کی بندگی کا سوز ہے دعویٰ تو خلقت کو
ولے دیکھا جسے بندہ ہے اپنی خود نمائی کا
میر سوز دہلوی
No comments:
Post a Comment